حکومت کی ستم ظریفی....اور آزاد امیدوار خرم جمال شاہد کی بڑھتی مقبولیت
تحریر: خلیل زمان تحصیل وادی سرگن نیلم
وادی نیلم عرصہ دراز سے مصاٸب میں گھیری ہوٸی وہ جنت ہے جو ازل سے ہر حکمران کے دلاسوں ۔تسلیوں میں لٹتی رہی جسکی خوبیاں بیان کریں تو القابِ صفت کی کمی۔۔۔اور۔۔دوچار مساٸل کو قلمبند کریں تو برے اطوار کے لیٸے لفظوں کی کمی۔
لیکن قصور واری کا تاج کس کی پیشانی پہ سجایا جاۓ ۔۔۔؟؟؟
وادی نیلم کی عوام یہ فیصلہ کرنے میں ہمیشہ سست روی کا شکار رہی
حکمران ہر دور میں نیلم کی عوام سے حاتم بن طاٸی جیسی رحمدلی۔۔محمد بن قاسم جیسی بہادری کے گن گا کر بھاری اکثریت سے الیکشن جیتنے کے بعد مظفرآباد اسمبلی میں بیٹھ کر کامیابی پہ دعوتوں کی رنگ برنگی ڈشوں کے مزے لینے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔۔وادی نیلم کی عوام پھر سے ان تسلیوں اور اپنی بدقسمتی کی جلد تبدیلی کی امید کے چراغوں کو لہو سے جلا کر راہ تکتی ہے۔مگر وہ لفظی و فرضی مسیحا اس جانب نظرِ کرم نٸے پانچ سالے کے قریبی دنوں میں کرتے ہیں۔۔
ان پانچ سالوں میں وہ پرانے زخموں کو مندمل کرنے کے لیٸے دوا تیار کر لیتے ہیں۔۔۔
مگر لمحہ فکریہ
یہ ہے پندرہ بیس سال سے یہ رواں سلسلے کب تک مسلط رہیں گے ۔۔۔؟؟؟
آخر نیلم کی عوام کب تک ان جھوٹی تسلیوں میں ۔۔ان مساٸل۔۔ اس ظلم۔۔ اور ان غیر منصفانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھے رہیگی۔۔۔۔؟؟؟؟
آج کے اس ماڈرن دور میں بھی وادی نیلم کی عوام۔روڈ ہسپتال اور بہتر تعلیمی نظام سے محروم ہے ۔۔
خاص کر وادی سرگن اور گریس کا ایریا ہے جو ایک فٹ برف پڑھنے سے مارچ اپریل تک بند رہتا ہے اور عوام اپاہیج و مفلوج ہو کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے...
وادی سرگن جو کہ تیرہ گاؤں پچیس ہزار سے زائد آبادی اور تیرہ ہزار رجسٹرڈ ووٹر پر مشتمل ہے
اس وادی میں سانحہ 13 جنوری 2020 کو جب گلئیشیر میں مکانات اور اموات واقع ہوئیں تو سرگن کی آٹھ کلو میٹر روڈ سانحے کے بیس دن بعد کھولی گئی...؟؟
سرگن بازار 25 اگست 2018 آتشزدگی میں خاکستر ہونے والے ہسپتال کی عمارت آج تک نہ بن سکی عوام در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور....
سرگن تین میگا واٹ بننے والی بجلی ....جسکے ابتدائی تعمیری سٹیج میں سرگن کے لوگوں نے اپنی جائیدادوں کا ضیاع کیا اپنی زمین کو سینے چیر کر پانی کی نالی پاس کروائی آج وہی عوام بجلی کی سہولت سے محروم ہے....
میگا پراجیکٹ پر سرگن کے پڑھے لکھے نوجوان تقرری سے بھی محروم رہے...ان دس سالوں میں سرگن کی عوام ہر سیاسی کھلاڑیوں کے کھیل دیکھ چکی ہے سبھی نے اپنے گھروں کے چراغ جلانے کے لئیے عوام کا خون تیل کی صورت میں سمیٹا ہے ....اگر پھر بھی ان دس سال سے آزمائے ہوئے لوگوں کو نیلم کی عوام ایک بار پھر امتحان لینا چاہتی ہے تو یہ مزید پانچ سالوں کی مایوسیوں کے ملبوسات میں لپٹنے کا ایک اور درد ناک فیصلہ ہوگا.....
سوچوں کے وجود اب نا امیدیوں کے انگاروں پہ جل کے راکھ ہو رہے ہیں
اب کی بار سیاست کے اندر نیلم کے بے باک نڈر اور مخلص قیادتی لیڈر خرم جمال شاہد صاحب میدان میں اتر رہے ہیں جو کہ نیلم یوتھ فورم تحریک کے عہدیدار رہ چکے ہیں اور بہترین سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں ہمیشہ انکے قلم کی نوک عوامی مسائل اور اجتماعی مفادات پر چلتی رہی ہے اور انکے قلم کی سیاہی عوام کو اندھیروں سے نکال کر مزید رنگینیاں بخشنے میں معاون ثابت ہوئی ہے...اور سب سے بڑی بات کے خرم جمال شاہد صاحب نے اپنی الیکشن کمپین کے دوران ووٹ مانگنے جھوٹے تسلی دلاسے اور اٹوٹ وعدوں کے بجائے لوگوں کو اپنے فیصلے کرنے کی ہمت ...شعوری آگاہی...اور نیلم کی ترقی کی تبلیغ کی ...جو کے ناقابل فراموش ہے....!!!
حال میں گلگت بلتستان کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کی کارکردگی نے نمایاں اور منفرد خصوصیات منظر عام پر لائی ہیں جو کہ وہاں کی عوام کے لئیے خوش آئندہ اقدام ہے...
اسی طرح اگر نیلم کے نوجوان بھی پرانی بوسیدہ سیاسی چاپلوسی سے نکل کر آزاد امیداوار نوجوان قیادت کا ساتھ دیں اور قومی امانت ووٹ کی صورت میں کسی دیانتدار شخصیت کو سونپیں تو وہ دن دور نہیں جب نیلم ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو اور عوام کے گلے میں لگے پرانے سیاسی پھندوں سے چھٹکارا نہ مل جائے ....اگر انہی پرانے ٹھگ بازوں کی چالوں میں عوام گھومتی رہی اور ایک بار پھر ان گفتاری غازیوں کے دعوں پر یقین کر بیٹھی تو مایوسی مقدر بن جائیگی...
اس
بدلتے دور اور اپنے بدلتے رویوں کیطرح وادی نیلم کی تقدیر بدلنے کے لیٸے غیر متزلزل اقدام آزاد امید وار نواجوان قیادت کو سپورٹ کر کے سامنے لانے کےلئیےاٹھاٸیں تاکہ جینے کے لیٸے اذیت کی زنجیریں ہمارے گرد حصار تنگ نہ کر سکیں۔۔۔!!
جس وقت اپنی فتح کا پرچم کرو بلند۔۔!!!!
ہاری ہوئی سپاہ کو ہنس کر نہ دیکھنا----------»"
(شبنم رومانی)